ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
بھٹک گئے تھے تو کیا لوٹ آئیے اب بھی
عَلَم جو لے کے چلے تھے اٹھائیے اَب بھی
وہ جس کی لَے پہ کبھی دل سبھی کے دَھڑکے تھے
بہ صِدقِ دل وہی نغمہ سنائیے اَب بھی
وہ جس کی لَو پسِ ہر لب سسک رہی ہے ابھی
دِیا وہ ہاتھ میں لے کر جلائیے اَب بھی
نفس نفس کو جو پھر حدّتِ جنوں بخشے
وہ شعبدہ سرِ محفل دکھائیے اَب بھی
اک ایک رَہ کو منّور کیا تھا جس نے کبھی
جبیں جبیں پہ وُہی ضَو سجائیے اَب بھی
وہ آرزو کہ جو تشنہ ہے آج تک ماجدؔ
وُہی بہ شکلِ غزل گنگنائیے اَب بھی
بھٹو دور میں کہی گئی ایک سیاسی غزل
ماجد صدیقی