ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
شاخ سے ایک اِک جھڑا کیجے
سجدۂ بے بسی ادا کیجے
دستِ گلچین و برق و ابر و ہوا
کس سے بچئے کسے خدا کیجے
زخم بن جائے جو سماعت کا
بات ایسی نہ تم کیا کیجے
اُس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے
انگلیوں میں قلم لیا کیجے
خواہشِ اَوج کی سزا ہے یہی
ہوکے شعلہ بہ سر بُجھا کیجے
کُیوں دُکھے دل دُکھائیے ماجدؔ
چُپ نہ رہئے تو اور کیا کیجے
کیجے کو’’کی جے‘‘ پڑھا جائے
ماجد صدیقی