ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
رنج ہے تجھ سے تو وہ راہِ سخن بھی پائے گا
زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا
میں کہ بھنوروں سی طلب لے کر رواں ہوں گُل بہ گل
کوئی قاتل اِس طلب پر بھی تو غالب آئے گا
تُو کہ پھولوں سی تمنّاؤں میں محوِ رقص ہے
تجھ سی تتلی کا سراپا بھی تو مسلا جائے گا
ہے شگفتِ گُل سے تحریکِ شگفتِ آرزو
دم بخود رہ کر نہ یہ موسم بِتایا جائے گا
اپنے قدِ فکر کو ماجدؔ نہ کر اِتنا سڈول
بعد تیرے کل ترا نقّاد بھی اِک آئے گا
ماجد صدیقی