ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
تھا جو مشکل کا مداوا میرا
رُک گیا ہے وہی رستہ میرا
جُرعہِ غم ہے مجھے جُرعۂ مے
ٹوٹتا ہی نہیں نشّہ میرا
خُوب سُلگائی دبی آگ مری
حال پوچھا ہے یہ اچّھا میرا
خشک پتّوں سا وہ بچھڑا مجھ سے
دیکھ کر رنگ بدلتا میرا
عرش اور فرش ملے ہیں باہم
ہے عجب گھر کا یہ نقشہ میرا
مُسکراہٹ مرا غازہ ہی نہ ہو
دیکھئے غور سے چہرہ میرا
ایک باطن بھی ہے ہر ظاہر کا
کیجئے یوں نہ تماشا میرا
دفعتاً جیسے خُدا بن بیٹھا
دیکھ کر ہاتھ وہ پھیلا میرا
امتحاں میں مرے پرچے خالی
اور بڑا سب سے ہے بستہ میرا
چور جو دل میں چُھپا تھا ماجدؔ
کر گیا ہے وہ صفایا میرا
ماجد صدیقی