ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
جنوں شناس کیا جس کی ہر گلی نے مجھے
بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے
شجر سے جھڑ کے دُہائی چمن چمن دوں گا
وہ دن دکھائے اگر میری خستگی نے مجھے
مرا نصیب! مجھے تربیت طلب کی نہ تھی
کیا ہے خوار تمّنا کی سادگی نے مجھے
خزاں کے بعد سلوکِ وداع، صرصر کا
سِک سِسک کے سنایا کلی کلی نے مجھے
در آئی ہے جو مجھے اُس نمی پہ حق ہے مرا
کہ دشت دشت پھرایا ہے تشنگی نے مجھے
پئے نمو ہے یہ کیا عارضہ لجاجت کا
یہ کیسے روگ دئیے ذوقِ تازگی نے مجھے
رہِ سفر میں برہنہ نظر تھا میں ماجدؔ
لیا ہے ڈھانپ بگولوں کی ہمرہی نے مجھے
ماجد صدیقی
جواب دیں