ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی
جواب دیں