ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سُنے پر ہے
اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے
گئی تھیں کِس کے تعاقب میں بے حصولِ مراد
یہ کیسی گرد نگاہوں کے آئنے پر ہے
وہ کھینچتی ہے جسے پینگ سے بزورِ شباب
نگاہِ چپکی اُسی نصف دائرہ پر ہے
وہ شوخ جب سے نگینہ مری نظر کا ہے
اُسی کی چھاپ چمن کے سمے سمے پر ہے
لُٹے ہیں گُل تو نظر مکتفی ہے پتّوں پر
زہے نصیب گزر ہی رہے سہے پر ہے
نہیں بعید غزل کو شبابِ نَو بخشے
یہی گمان تو ماجدؔ سے منچلے پر ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں