ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
ہر سمت ہی حشر اِک بپا ہے
کیا اور نجانے دیکھنا ہے
نِت اپنی جھلک دکھانے آئے
وُہ بُوم کہ بام پر بسا ہے
اِک اور کی ڈور سے وُہ دیکھو
اِک اور پتنگ لُٹ چلا ہے
جارِح کو گئے تھے جو دکھانے
وُہ زخم تو پھر بھی اَن سِلا ہے
گر دِل نہ رکاوٹوں کو مانے
مشکل ہو کوئی بھی سو وُہ کیا ہے
دِن کتنے ہیں اور کام کتنے
ماجِد تُجھے یہ بھی سوچنا ہے
ماجد صدیقی