ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
دہر کا خود سے اعتماد اٹھا
کچھ نہ کر اور بس فساد اُٹھا
بارِ تشویش تیرے ذہن میں ہے
کم اُٹھا چاہے تو زیاد اُٹھا
دیکھ تجھ پاس حرفِ نرم تو ہے
در سے سائل کو بامراد اُٹھ
دور ہے آسماں زمیں ہی پہ رہ
ہاں اُٹھا نازِ خاک زاد اُٹھا
بزم میں لب نہ اپنے کھینچ کے رکھ
نطقِ خوش کُن پہ حرفِ داد اُٹھا
بانٹ ماجِد سکونِ دل ہر سو
واہموں کے نہ کردباد اُٹھا
ماجد صدیقی