ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
مجھ سے جو چھن گئے،میرے رب موڑ دے
وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے
فاختاؤں کے حق میں خلافِ ستم
رگ بہ رگ تھا جو رنج و تعب موڑ دے
ساتھ اپنے ہی جس میں سخن اور تھے
خلوتوں کی وہ بزمِ طرب موڑ دے
جس سے مُکھ تھا انگاروں سا دہکا ہوا
مُو بہ مُو تھی جو وہ تاب و تب موڑ دے
الجھنوں کا تھا جن پر نہ سایہ تلک
ہاں وہ لمحاتِ خندہ بہ لب موڑ دے
نام اوروں کے جتنے شرف ہیں مرے
مجھ کو موڑے نہ تھے جو، وہ اب موڑ دے
رنج جو بھی ملے ،عفو کی شکل میں
دینے والوں کو ماجِد وہ سب موڑ دے
ماجد صدیقی
جواب دیں