ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
ایک آغاز تھا انجام بہت یاد آئے
وقت سمٹا تو ہمیں کام بہت یاد آئے
کچھ تو ایسے تھے جنہیں بھول کے تسکین ملی
اور کچھ لوگ بہ ہر گام بہت یاد آئے
وہ نہ جو ٹوہ میں روزی کی نکل کر لوٹے
چہچہے اُن کے سرِشام بہت یاد آئے
مول جب اپنا پڑا شہر کے بازاروں میں
وہ جو یوسف کے لگے دام، بہت یاد آئے
خود ہی نکلے تھے نکالے نہ گئے جو اُس سے
کعبۂ دِل کو وہ اصنام بہت یاد آئے
دیکھ کر ندّیاں جذبوں کی اترتی ماجِد
تھے کبھی دل میں جو کہرام، بہت یاد آئے
ماجد صدیقی