ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
اِک اِک قدم پہ ہے نئی ایجاد کیا کہیں
واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں
صحرا میں جیسے کوئی بگولہ ہو بے مُہار
ہم آپ ہیں کُچھ ایسے ہی آزاد کیا کہیں
ہم مطمئن ہیں جس طرح اینٹوں کو جوڑ کر
یوں بھی کبھی ہوئے نگر آباد کیا کہیں
ہم نے تو کوہِ جُہل و کسالت کیا ہے زیر
کہتے ہیں لوگ کیوں ہمیں فرہاد کیا کہیں
باٹوں سے تولتے ہیں جو پھولوں کی پتّیاں
حق میں ہمارے فن کے وہ نقّاد کیا کہیں
ہم جنس اوجِ تخت سے لگتے ہیں کیوں حقیر
ماجِد یہ ہم کہ جو نہیں شہ زاد کیا کہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں