ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
کم اوقات بھی زور آور سے اکڑ سکتا ہے
مہ کا اثر بھی مہر کی ضَو پر پڑ سکتا ہے
بے غیرت کو اپنے کیے پہ ملال کہاں کا
غیرت مند ہی شرم سے خاک میں گڑ سکتا ہے
سُوکھ کے برگِ گلاب بھی نوکیلا ہو جائے
ہونٹوں میں جو، اُلجھ سکتا ہے، اَڑ سکتا ہے
کام میں لانے کی تنظیم کی بات ہے ساری
دام کا دھاگا شیر تلک کو جکڑسکتا ہے
کرتا ہے فریاد کی لَے وُہ سپرد ہَوا کے
پتّا ورنہ بِن لرزے بھی جھڑ سکتا ہے
آب میں اُترا چاند کسی سے نہ ساکن ٹھہرے
اور پہاڑ بھی اپنی جگہ سے اُکھڑ سکتا ہے
شرط اگر ہے تو وہ مالی کی نااہلی
ماجِد جس سے باغ کا باغ اُجڑ سکتا ہے
ماجد صدیقی