ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
دِن ہیں جو بِن کمائیوں کے ہیں
فیض یہ اب پڑھائیوں کے ہیں
پیڑ پر، لوحِ بخت پر، انداز
اپنے اپنے لکھائیوں کے ہیں
درد جھیلے ہیں کتنے ماؤں نے
راز یہ پاس دائیوں کے ہیں
زرد پتّے یہی کہیں باہم
اگلے موسم جدائیوں کے ہیں
یُوسف آسا ہر اِک گُنی جانے
کیسے برتاؤ بھائیوں کے ہیں
رہنما کب کہیں کہ اُن سب کے
جو چلن ہیں قصائیوں کے ہیں
ہم کہ ٹھہرے فراز جُو ماجِد
یہ کرم ہم پہ کھائیوں کے ہیں
ماجد صدیقی