ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
بدل کے روپ نئے، اور دندنانے لگے
ستم شعار دُعاؤں سے کب ٹھکانے لگے
سنا جو قطعِ شبِ رُوسیہ کا مژدہ
چٹک چٹک کے شگوفے بھی چہچہانے لگے
عتابِ ابر تو لمحوں سے مستزاد نہ تھا
شجر کو ڈھانپتے اپنا بدن زمانے لگے
بجے ہیں روز ہتھوڑے نئے سماعت پر
بجا کہ تن پہ ہمارے نہ تازیانے لگے
جو اُن کے نام تھا کوتاہ قامتی کے سبب
اُچھل اُچھل کے سقم خود ہی وہ دکھانے لگے
ہُوا کچھ ایسے کہ زینے تہہِ قدم لا کر
جو پست قد ہیں وہ نیچا ہمیں دکھانے لگے
ماجد صدیقی
جواب دیں