ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
یادوں کا نقشِ دلنشیں دِل میں کوئی کیونکر نہیں
جو سیر کر دے رُوح کو ایسا کوئی منظر نہیں
وُہ جس جگہ ہے اُس جگہ جانا کسی کا سہل کب
تُجھ بِن صبا! اپنا کوئی اب اور نامہ بر نہیں
ہم آپ تو ہیں دمبخود،ہم سے ملے جو وہ کہے
تُم لوگ ہو جس جَیش میں اُس کا کوئی رہبر نہیں
ہے کس جگہ چلنا ہمیں رُکنا کہاں بِچھنا کہاں
ہے درس ایسا کون سا وُہ جو ہمیں ازبر نہیں
جو دب گیا وُہ صید ہے،چڑھ دوڑتا صیّاد ہے
ابنائے آدم ہیں جہاں،بالائے خیر و شر نہیں
کُچھ یہ کہیں کُچھ وہ کہیں ہم کیاکہیں کیا ٹھیک ہے
ماجِد ہی ذی دانش یہاں، ماجِد ہی دانشور نہیں
ماجد صدیقی