ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
ابر بردوشِ ہوا رہ کر بھی پانی ہو گیا
اور مقیّد ہو کے نہروں کی روانی ہو گیا
لطفِ باراں سے، شگفتِ گُل سے جو منسوب تھا
ہاں وہی مضموں ادا میری زبانی ہو گیا
وہ کہ کہلاتا رہا تھا لالۂ صحرا کبھی
رنگ و خوشبو کی کشش سے میرا جانی ہو گیا
اُس نے اہلِ خاک سے پھر رابطہ رکھا نہیں
جس کو کچھ رفعت ملی وہ آسمانی ہو گیا
خواب میں اکثر لگا ایسا کہ صبح جاگتے
میں بھی اوروں کی طرح قصّہ کہانی ہو گیا
کھو کے سارے رنگ گردآلود، زنگ آلود سا
دل بھی ہے گزرے زمانوں کی نشانی ہو گیا
ہاں وہی ماجِد کہ تھا صورت گرِ جذبات جو
مانتے ہیں سب کہ ہے بہزاد و مانی ہو گیا
ماجد صدیقی
جواب دیں