ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
اسیرِ قرب کرے، وسعتِ خُدائی نہ دے
یہی جُنوں ہے مِرا وُہ مجھے رہائی نہ دے
وُہ مثلِ موج مِلے آ کے ریگِ ساحل سے
مگر اُسے بھی کبھی اذنِ آشنائی نہ دے
یہ عہدِ جیب تراشی ہے کیا کہ جس میں کہیں
کوئی بھی کھُل کے کسی اور کی صفائی نہ دے
یہی دُعا ہے کہ بے آب ہوں نہ حرف مِرے
سزا کوئی بھی وُہ دے، عجزِ بے نوائی نہ دے
امیرِ شہر کا کیا وُہ تو بس یہی چاہے
یہاں کوئی بھی کسی بات کی دُہائی نہ دے
یہ کیسا منبعِٔ ظلمت ہے دَورِ نو کہ جہاں
جز اپنی ذات کے ماجدؔ کوئی دکھائی نہ دے
ماجد صدیقی