ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
خدشوں نے پھر ذہن پہ جیسے وار کیا
کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا
وسعتِ شب کو بڑھتا دیکھ کے ہم نے بھی
اپنا اک اک حرف سحر آثار کیا
موسم گل میں گلشن سے جو آئے تھے
اُن جھونکوں نے اور بھی کچھ بے زار کیا
آخر اک دن ناز عجائب گھر کا بنے
ہم نے جن تختوں پر دریا پار کیا
کچھ بھی نہیں جس گھر میں اُس کے تحفّظ نے
گھر والوں کو اور بھی ہے نادار کیا
ماتھے پر مزدور کے دیکھ، مشقّت نے
کن شفاف نگینوں سے سنگھار کیا
ماجدؔ سمت سفر کی ٹیڑھی تھی ورنہ
چلنے سے کب ہم نے تھا انکار کیا
ماجد صدیقی
جواب دیں