ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ثبوتِ جرم کی صورت کوئی بنا دیجے
کسی طرح ہی سے دیجے، مجھے سزا دیجے
اُٹھے جو حرفِ حمایت کوئی مرے حق میں
دمِ نمود سے پہلے اُسے دبا دیجے
دراز قد ہوں تو پھر گاڑئیے زمیں میں مجھے
جو فرق اعلیٰ و ادنیٰ میں ہے مٹا دیجے
گرفت گر مری پرواز پر نہیں ہے تو کیا
نظر کی آگ سے ہی پر مرے جلا دیجے
کتابِ عدل میں کیا؟ جو تہہِ خیال میں ہے
وُہ حکمِ خاص بھی اَب خیر سے سُنا دیجے
کھنچو نہ میرے نشیمن کے ہم نشیں پتّو!
یہ جل اٹُھا ہے تو تُم بھی اِسے ہوا دیجے
میانِ دیدہ و لب، شعلۂ بیاں ماجدؔ!
کہو اُنہیں کہ جہاں بھی اُٹھے،بُجھا دیجے
ماجد صدیقی
جواب دیں