ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
بات بظاہر جو بھی کھری دکھلائی دے
مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے
ماند کرے پل بھر میں گردِ ریا اُس کو
باغ میں کھِلتی جو بھی کلی دکھلائی دے
عُمر کی گاڑی جس کو پیچھے چھوڑ آئی
اُس جیسی اَب کون پری دکھلائی دے
دن کو بھی اَب یُوں ہے جیسے آنکھوں میں
سُرمے جیسی رات سجی دکھلائی دے
کینچلیوں سی برگ و شجر سے اُتری جو
آنے والی رُت بھی وُہی دکھلائی دے
آنکھ کا عالم پُوچھ نہ اُس کے بچھڑنے پر
کاسۂ گُل میں اوس بھری دکھلائی دے
تُو اُس مارِسیہ سے دُور ہی رہ
نیّت جس کی تجھ کو بُری دکھلائی دے
ماجد صدیقی