ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
درد جاں بہ جاں اُترا، کرب کُو بہ کُو پھیلا، سب مری نظر میں ہے
مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے
آنچ ہے جو سانسوں میں آخرش وُہ پُھونکے گی ہر سلاخ زنداں کی
کشت میں تمّنا کے پھول ہی اُگائے گی نم جو چشم تر میں ہے
کب تلک چھپائے گی بھینچ کر ورق اپنے وقت کی لغت آخر
فرق کیوں نہ آئے گا سامنے نگاہوں کے، وُہ جو اسپ وخر میں ہے
روک لو گے دریا کو پر جو نم سمائے گی خاک میں وہ کیا ہو گی
اُس کا کیا کرو گے تم زور جو کرن ایسا فکر کے سفر میں ہے
جو خبر بھی آتی ہے ساتھ اپنے لاتی ہے بات اِس قدریعنی
قافلہ اُمیدوں کا اب تلک یونہی لپٹا گردِ رہگزر میں ہے
طشتِ وقت میں ماجدؔ رکھکے جب بھی دیکھوں تو دل یہی کہے مجھ سے
اِک عجیب سی رفعت دُور دُور تک پھیلی اپنے بام و در میں ہے
ماجد صدیقی