ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
ہُوا ہے درپئے جاں اَب تو ہر سفر جیسے
قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے
سُجھا رہی ہیں یہی نامرادیاں اپنی
رہیں گے آنکھ میں کنکر یہ عمر بھر جیسے
سفر میں ہُوں پہ وُہ خدشات ہیں کہ لگتا ہے
جھُلس رہا ہو سرِ راہ ہر نگر جیسے
کہیں تو بات بھلا دل کی جا کے کس سے کہیں
بچھڑ کے رہ گئے سارے ہی ہم نظر جیسے
لپک رہا ہوں مسلسل مگر نہ ہاتھ آئے
کٹی پتنگ ہو اُمید کی سحر جیسے
دہن دہن سے زباں جھڑ گئی ہے یُوں ماجدؔ
خزاں کے دور میں بے برگ ہوں شجر جیسے
ماجد صدیقی
جواب دیں