ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
دوسروں کے دروازے جا کے کھٹکھٹانے میں
سُبکیاں ہی ہاتھ آئیں حالِ دل سُنانے میں
سو تو مَیں گیا لیکن دشت کی عطا کردہ
سب تھکن اُتر آئی ہاتھ کے سرہانے میں
اِک لُغت نگل بیٹھا ناقبول لفظوں کی
میں جِسے تعّرض تھا کنکری چبانے میں
صَرف ہو گئیں کیا کیا سِیٹیوں کی آوازیں
سعد کو سُلانے میں چور کو جگانے میں
قربتوں کی لذّت تھی جو بھی، پر نکلنے پر
کھیت کھیت جا بکھری روزیاں کمانے میں
تیر پر قضا کے بھی دشت میں نظر رکھنا
ندّیاں لگا لیں گی اپنے گنگنانے میں
تذکرے وفاؤں کے کر کے، یار لوگوں کو
لے چلا ہے تُو ماجدؔ کون سے زمانے میں
ماجد صدیقی