ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
زورآور اُس فن کو اپنی ڈھال کہے
خلق جِسے کمزور کا استحصال کہے
دیکھ رہی ہے ہاتھ دُعا کا بن بن کر
بادل سے کیا اور چمن کی آل کہے
رُخصت ہوتے اُس سے وُہی کُچھ مَیں نے کہا
پیڑ سے جو کچھ ٹوُٹ کے گرتی ڈال کہے
اور بھی کیوں لوٹے جا کر انگاروں پر
کون کسی سے اپنے دل کا حال کہے
یہ بھی کسی کے دل کا نقشہ ہو شاید
تُو جس کو شیشے میں آیا بال کہے
آپ کے حق میں اگلے دن اچّھے ہوں گے
بات یہی ہم سے ہر گزرا سال کہے
دل کی بات تجھی سے جیسا کہتا ہو
فیض کہے ماجدؔ یا وُہ اقبال کہے
ماجد صدیقی