ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جھڑکے شاخوں سے تہِ خاک سمانے والے
جو گئے ہیں وُہ نہیں لوٹ کے آنے والے
بارشِ سنگ سے دوچار تھا انساں کل بھی
کم نہیں آج بھی زندوں کو جلانے والے
آئے مشکیزۂ خالی سے ہوا دینے کو
تھے بظاہر جو لگی آگ بُجھانے والے
ضُعف کس کس نے نہیں خُلق ہمارا سمجھا
ہم کہ آنکھیں تھے بہ ہر راہ بچھانے والے
صدق جذبوں میں بھی پہلا سا نہیں ہے ماجدؔ
اب نہیں خضر بھی وُہ، راہ دکھانے والے
ماجد صدیقی