ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
گُماں بہار پہ دیپک کی تان جیسا تھا
جو برگ بھی تھا سلگتی زبان جیسا تھا
وُہ دن بھی تھے کہ نظر سے نظر کے ملنے پر
کسی کا سامنا جب امتحان جیسا تھا
یہ کیا ہُوا کہ سہارے تلاش کرتا ہے
وُہ پیڑ بھی کہ چمن میں چٹان جیسا تھا
کسی پہ کھولتے کیا حالِ آرزو، جس کا
کمال بِکھرے پروں کی اُڑان جیسا تھا
تنی تھی گرچہ سرِ ناؤ سائباں جیسی
سلوک موج کا لیکن کمان جیسا تھا
کہاں گیا ہے وُہ سرچشمۂ دُعا اپنا
کہ خاک پر تھا مگر آسمان جیسا تھا
نظر میں تھا ہُنرِ ناخُدا، جبھی ماجدؔ
یقین جو بھی تھا دل کو گمان جیسا تھا
ماجد صدیقی