ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
ہم بہاروں کے طالب تھے لیکن رُتوں کی رضا اور تھی
جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی
وُہ کہ جس کو تقاضا رہا ہم سے اظہارِ آزار کا
دل کو لائے زباں پر تو اُس انجمن کی فضا اور تھی
ہم تو ہر بات کو اُس کی، اخلاص کا رنگ دیتے رہے
ہم کو احساس ہی کب یہ تھا نیّتِ آشنااور تھی
اِس عجوبے کو ہم کیا کہیں جب چمن ہی قفس بن گیا
ساتھ لاتی تھی اپنے جو نزہت کبھی وہ صبا اور تھی
ساتھ لیکر جو چلتے تھے اوروں کو وہ رہنما اور تھے
کان میں گھولتی تھی جو رس ہمسری کا، صدااور تھی
سنگ دل تھے جو، اِس کو وُہی راکھ کا ڈھیر سمجھا کئے
دل کی ماجدؔ وگرنہ بہ ایں بے بسی بھی بہا اور تھی
ماجد صدیقی