ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پہلی سے پہلی تک دیکھوں دریا کا وُہ پاٹ
بیچ میں جس کے مایہ کی ہے سانپوں جیسی کاٹ
فوم کے نرم گدیلوں پر بھی دل پر نقش ملے
سایہ دار دھریک کے نیچے بان کی سادہ کھاٹ
سامنے جن کے سچ کے ننگا لگتا تھا ہر جھُوٹ
رہ گئے دُور وُہ لوگ پُرانے سیدھے سادھے جاٹ
ہر اُمید کے دامن پر پیوست رہیں ہر آن
درس میں اپنے شامل تھے جو اسکولوں کے ٹاٹ
جس بازار میں جاؤں دُوں مَیں نرخ سے بالا دام
کم اپنے اوزان میں نکلیں ہر تکڑی کے باٹ
قول کے کچّے لوگوں سے نسبت پر کیسا ناز
دھوبی کے کُتّے کا کیا ہے جس کا گھر نہ گھاٹ
سانپ نکل جانے پر ؔ اُس کی پِیٹ لکیر
محرومی کے ہاتھوں لے، بیٹھا انگوٹھے چاٹ
ماجد صدیقی
جواب دیں