ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
دیکھنا اَب کے پھر دیکھتے دیکھتے سائباں چاندنی کا سمٹنے لگا
اوج کو اپنے چھُو کر مہ آرزو، ماہِ کامل کی مانند گھٹنے لگا
تُو بھی اُمید کو دے نیا پیرہن جان لے تو بھی کچھ موسموں کا سخن
دیکھ لے اے دلِ زار! تیرے لئے وقت تازہ ورق ہے اُلٹنے لگا
دوستی دشمنی کے لبادوں میں پھر، کر دکھانے پہ ہے اور ہی کچھ مُصر
وقت آکاس بیلوں کے بہروپ میں سبز اشجار سے پھر لپٹنے لگا
پھر فضاؤں میں اُبھرے گی اِک چیخ سی کان جس پر دھرے گا نہ ہرگز کوئی
حرص کازاغ بالک پہ اُمید کے ہے نئی آن سے پھر جھپٹنے لگا
چھین لے گا بالآخر بہ فکرِمتیں، دیکھنا اُن کے پیروں تلے کی زمیں
ناتوانوں سے گرچہ ستمگار کی چپقلش کا ہے پانسہ پلٹنے لگا
دیکھ ماجدؔ سکوں کی نئی صورتیں پل کی پل میں نظر میں جھلکنے لگیں
زخم آہوں میں کافور ہونے لگے دردِ دل آنسوؤں میں ہے بٹنے لگا
ماجد صدیقی