ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
اُدھر کنارِ لب و چشم ہیں عتاب وہی
سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی
وہی ہے جبرِ زماں، خود فریبیاں بھی وہی
سفید بال ہمارے وہی، خضاب وہی
ردائے ابر کو جو کشتِ بے گیاہ سے ہے
یہاں سروں سے ہے چھایا کو اجتناب وہی
فرازِ عرش سے نسبت رہی جسے ماجد
دل و نظر پہ اُترنے لگی کتاب وہی
ماجد صدیقی
جواب دیں