ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
نقش بنا لے جو بھی خود کو مانی لگتا ہے
جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے
کم کم ایسا ہوتا ہے جب، آگ میں پھول کھلیں
معجزہ ایسا ہو تو وہ، یزدانی لگتا ہے
ہم تم سارے، خانہ بر دوشوں سے ہیں جن کو
جو موسم بھی آئے وہ، بُحرانی لگتا ہے
ہم کہ جنہیں حبسِ بے جا میں رکھا گیا، ہمیں
اپنا سُندر دیس بھی، کالا پانی لگتا ہے
جنگ و جدال کو گردانیں بس کھیل تماشا وُہ
فرعونوں کو اپنا بدن کب، فانی لگتا ہے
آج بھی ماجدؔ انسانوں سے انسانوں کا چلن
حیوانی لگتا ہے، غیر انسانی لگتا ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں