ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
دن علالت کے ہیں، اور ماجِد ہمیں، اپنا جینا کیا سے کیا لگنے لگا
آج کل کے درمیاں کا فاصلہ عمر بھر کا فاصلہ لگنے لگا
گِھر گیا جب تُندیٔ گرداب میں، صلح کُل لگتا تھا کیا مارِ سیاہ
پر کنارے آ لگا جب خَیر سے، پیش و پس اپنے، خدا لگنے لگا
کیا اِسے ہم وقت کی سازش کہیں یا اِسے کوتاہئِ قسمت کہیں
وہ کہ جس کا ہم مداوا کر چکے، روگ وہ، پھر سے ہرا لگنے لگا
جب بھی جانچا ایک ذرّے کا کمال جب بھی پرکھا پھول پتوں کا جمال
ہم بہت کچھ کہہ چکے پھر بھی ہمیں، جانے کیا کیا، اَن کہا لگنے لگا
کرب کے ہاتھوں نجانے خون میں، کیا سے کیا بپھرے بھنور اُٹھنے لگے
کیا بگاڑ اُٹھّا نجانے جسم میں، ہر نیا دن حشر زا لگنے لگا
دل میں اُترا ہے عجب اِک وہم سا، وقت اُس کو توڑ ہی کر رکھ نہ دے
وہ کہ ہے اِک عمر سے جو ایک سا، وہ تعلّق کیوں نیا لگنے لگا
ہے بجا ڈر ڈوب جانے کا مگر ڈر نہ چھایا ہو وہ، دل پر اِس قدر
ہم نظر تک میں نہ لاتے تھے جسے، کیوں وہ تنکا، آسرا لگنے لگا
ماجد صدیقی