ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
سچّے ہو گر تو اور نہ آنکھیں چُرائیے
لیکن جو ہو چکی وہ خطا مان جائیے
کیو ں وقتِگفتگو ہے نگاہوں میں اضطراب
زیرِ زباں ہے جو وہ زباں پر بھی لائیے
میں پُھول بھی ہوں گر تو بگولوں کی زد پہ ہوں
میں کھو چکا حواس مرے منہ نہ آئیے
کھینچے جو اپنی سمت اُنہیں بھی جو دُور ہیں
ایسا بھی کوئی پُھول سرِ لب کِھلائیے
لَو دے اٹھے گلاب نہ آخر سرِحجاب
اس طور بھی نہ روئے درخشاں چھپائیے
ماجد صدیقی