ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
ریاستوں میں کہاں ارضِ جاں یہ بٹنے لگی
کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی
اُدھر فساد سبک اور گھنے اندھیروں میں
اِدھر گماں کہ سیاہی فلک سے چھٹنے لگی
شباب پر ہے سفر واپسی کا ہر جانب
مہک بھی باغ میں اب سُوئے گل پلٹنے لگی
یہ کیسا جبر ہے، طوفانِ تیرگی کیا ہے
کہ روشنی تھی جہاں بھی وہیں سمٹنے لگی
نگل رہی ہے مجھے خاکِ زیرِ پا جیسے
مری درازیٔ قامت ہے خود ہی گھٹنے لگی
کہاں گئی وہ متانت وہ شستگی ماجدؔ!
ہر ایک سمت یہ وحشت سی کیوں جھپٹنے لگی
ماجد صدیقی
جواب دیں