ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 107
کس سے اپنی بپتا چھیڑوں کس کو حال سناؤں مَیں
کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں
نطق ہی ایک متاع تھی اپنی سو بے وَقر ہے برسوں سے
کون سی ایسی بات ہے جس پر محفل میں اِتراؤں مَیں
ہر پل ایک بدلتی رُت ہے رگ رگ میں ہے زہر نیا
کینچلیوں سے لگتے ہیں جو حرف زباں پر لاؤں مَیں
چہرہ چہرہ ایک اداسی صورت صورت صحرا ہے
کس گلشن پر ابر بنوں اور کون سے دشت پہ چھاؤں مَیں
نشوونمو کے حق میں دیکھے جو بھی خواب اُدھورے تھے
بِن پھل پات شجر ہوں ماجدؔ! گرد سے اٹتا جاؤں مَیں
ماجد صدیقی