ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 156
ہے کون جو آنکھوں میں مری عرش نشاں ہے
چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے
مدّت سے جو صےّاد کے ہاتھوں میں ہے موزوں
فریاد سے کب ٹوٹنے والی وہ کماں ہے
صحرا سی مری پیاس پہ برسا نہ کسی پل
وہ ابر کہ ہر آن مرے سر پہ رواں ہے
ہم لوگ چلیں ساتھ کہاں اہلِ غرض کے
آتی ہی جنہیں ایک محبت کی زباں ہے
رنگین ہے صدیوں سے جو انساں کے لہو سے
ہر ہاتھ میں کیسا یہ تصادم کا نشاں ہے
ماجدؔ ہے تجھے ناز نکھر آنے پہ جس کے
تہذیب وہ اخبار کے صفحوں سے عیاں ہے
ماجد صدیقی
جواب دیں