ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
سمٹی ہے پروں میں جو اُس شب کی سحر لانا
لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا
بھائے نہ اُنہیں کچھ بھی جُز کلمۂ تر لانا
اور ہم کہ ہمیں آئے ہونٹوں پہ شرر لانا
سینچی ہے گلستاں نے جو شاخِ شجر اس پر
لازم نہ بھلا کیونکر ہو برگ و ثمرلانا
پنجرے میں صبا لا کر خوشبو، یہی کہتی ہے
مشکل ہے گلستاں سے کچھ اور خبر لانا
موسم کی تمازت پر ہے فرض کہ ہرنوں کو
جو گھاٹ کہ مقتل ہو صحرا میں، اُدھر لانا
بھاڑے ہی پہ کرنا ہے یہ کام ہمیں ماجدؔ
دریا میں اترنا ہے اور ساتھ گہر لانا
ماجد صدیقی
جواب دیں