ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی
جواب دیں