ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 138
نقش بنے صحراؤں کے
سپنے سکُھ کی چھاؤں کے
دیدۂ تر کو مات کریں
دشت میں چھالے پاؤں کے
دیکھیں کیا دکھلاتے ہیں
پتّے آخری داؤں کے
پیڑ اکھڑتے دیکھے ہیں
کِن کِن شوخ اناؤں کے
ابریشم سے جسموں پر
برسیں سنگ جفاؤں کے
خرکاروں کے ہاتھ لگیں
لعل بلکتی ماؤں کے
ماجدؔ دیہہ میں شہری ہم
شہر میں باسی گاؤں کے
ماجد صدیقی