ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 99
شاہ اِس طرح گداؤں سے ملے
دھوپ جیسے کبھی چھاؤں سے ملے
سیدھے ہاتھوں نہ ملے کُچھ بھی یہاں
جو ملے اوج وہ داؤں سے ملے
آنچ سب میں تھی لہو جلنے کی
جتنے پیغام ہواؤں سے ملے
پُوچھتا کون ہے شہروں میں اُنہیں
ولولے جو ہمیں گاؤں سے ملے
کیا کریں ہم اِسے روشن ماجدؔ!
فیض اب کون سا ناؤں سے ملے
ماجد صدیقی