ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
عرش قدموں میں ہو، لگے ایسا
دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا
مجھ سے بھی ہیں قرابتیں اُس کی
کاش وہ شخص بھی کہے ایسا
جس سے میرا بدن دو نِیم ہوا
وار دوراں نہ پھر کرے ایسا
دل یہ کہتا ہے خِرمن خواہش
راکھ بن کر اُڑے، جلے ایسا
جس سے واضح ہو وحشتِ انساں
کوئی نکلا نہ ایکسرے ایسا
ہو تاسّف پہ ختم جو ماجدؔ
مول خطرہ کوئی نہ لے ایسا
ماجد صدیقی