ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
روز اک آنچ سی جاں سے آئے
دل کو تسکین کہاں سے آئے
کس توقع پہ لیا نام ترا
ایک خوشبو سی دہاں سے آئے
ضبط سے جسم پگھلتے ہوں جہاں
ہو کے ہم لوگ وہاں سے آئے
جسم آیا ہے کھنڈر ہونے کو
کیا خبر اور خزاں سے آئے
اتنا روئے ہیں مسلسل کہ ہمیں
اب تو دہشت سی فغاں سے آئے
لُطفِ مضموں بھی جُدا ہے ماجدؔ
کیا مزہ تیری زباں سے آئے
ماجد صدیقی