ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 119
لب و زبان کو ماجدؔ! فگار کیا کرنا
خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کیا کرنا
جسے ترستے بجھی ہیں بصارتیں اپنی
اب اُس سحر کا ہمیں انتظار کیا کرنا
نہ کوئی مدّ مقابل ہو جب برابر کا
تو رن میں ایسی شجاعت شمار کیا کرنا
یہ سر خجل ہے ٹھہرتا نہیں ہے شانوں پر
اِسے کچھ اور بھی اب زیر بار کیا کرنا
نہاں نہیں ہے نگاہوں سے جب کِیا اُس کا
کہے پہ اُس کے ہمیں اعتبار کیا کرنا
سبک سری میں جوہم پر کیا ہے دُشمن نے
جواب میں ہمیں ایسا ہی وار کیا کرنا
ماجد صدیقی