ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
دل سے یُوں اٹُھتے ہیں حرف دعاؤں کے
بول ہوں جیسے ہونٹوں پر بیواؤں کے
بُعد نجانے تا بہ نشیمن کتنا ہے
تیور ہیں کچھ اور ہی تُند ہواؤں کے
اب کے آس کا عالم ہی کچھ ایسا ہے
ہاتھ میں سکے جیسے آخری داؤں کے
پل پل چھینیں چہروں سے نم راحت کی
حلق میں اٹکے کنکر خشک صداؤں کے
پیشانی میں عجز کی میخیں اُتری ہیں
اور زباں کی نوک پہ وِرد خداؤں کے
رفتہ رفتہ پیار کا ابجد بھول گئے
شہر میں جو جو لوگ بھی آئے گاؤں کے
ماجدؔ نقش برآب سمجھتے تھے جس کو
نقش کھُدے ہیں دل پر اُس کے ناؤں کے
ماجد صدیقی