ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 153
ہم سے منسوب تھیں بے نام خطائیں جتنی
اِس قدر کب تھیں ملیں ہم کو سزائیں جتنی
زخم بن بن کے اُبھرتی ہیں وُہی چہروں پر
زیرِ حلقوم دبکتی ہیں صدائیں جتنی
مرگِ افکار نہ اِس درجہ کہیں بھی ہو گی
ذہن میں روز بھڑکتی ہیں چتائیں جتنی
سر ہوئے تھے کبھی اِتنے تو نہ عریاں پہلے
آندھیاں لے کے اُڑیں اب کے ردائیں جتنی
داغ تھے زیرِ تب و تاب سبھی پر ماجدؔ
ہم نے دیکھیں سرِ ابدان قبائیں جتنی
ماجد صدیقی