ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
دشت میں رہ کا شجر یاد آیا
اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا
پھر تمّنا نے کیا ہے رُسوا
پھر مسیحاؤں کا در یاد آیا
اُس کی آنکھوں سے لہو تک اُس کے
طے کیا تھا جو سفر یاد آیا
جب بھی بچّہ کوئی مچلا دیکھا
مجھ کو سپنوں کا نگر یاد آیا
ہم کو پنجرے سے نکلنا تھا کہ پھر
برق کو اپنا ہُنر یاد آیا
ابر ڈھونڈوں گا کہاں سر کے لئے
لُطف ماں باپ کا گر یاد آیا
کیا کرم اُس کا تھا ماجدؔ کہ جسے
یاد آنا تھا نہ ، پر یاد آیا
ماجد صدیقی
جواب دیں