ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 106
کوئی تو آگ ہے اُتری جواب کے آہوں میں
اُبھر رہے ہیں شرارے سے کیوں نگاہوں میں
پہنچ گئے ہیں یہ کس مہرباں کی سازش سے
سکوں کی آس لیے، جبر کی پناہوں میں
اُفق سے دل کی تمناؤں کے جو اُبھرا تھا
پلٹ کے چاند وہ آیا نہ اپنی باہوں میں
بچے گا دام سے کیا اُس کے کوئی زندانی
ستم نے کانچ بچھائے ہوئے راہوں میں
ہمارا جرم ہوئی موسموں سے نم طلبی
شمار بات نہ کیا کیا ہوئی گناہوں میں
وہ مرغ باز ہُوا نام پر قفس جن کے
ہمیں بھی جانیے اُنہی کے خیر خواہوں میں
ہے جب سے جبر کا پہرہ سروں پہ اے ماجدؔ
نہ نفرتوں میں مزہ ہے نہ لطف چاہوں میں
ماجد صدیقی