ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
یار کے قُرب کی تاثیر لیے پھرتے ہیں
اب کے جھونکے نئی زنجیر لیے پھرتے ہیں
گل، صبا، ابر، شفق، چاند، ستارے، کرنیں
سب اُسی جسم کی تفسیر لیے پھرتے ہیں
ایک سے کرب کا منظر ہے سبھی آنکھوں میں
آئنے ایک ہی تصویر لیے پھرتے ہیں
شاخ ٹُوٹے تو نہ پھولے کبھی ماجدؔ صاحب!
آپ کس خواب کی تعبیر لیے پھرتے ہیں
ماجد صدیقی
جواب دیں