ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
اِک اور بار بھی غارت مرا سوال گیا
ہنسی ہنسی میں مری بات پھر وہ ٹال گیا
بحال کتنا ہی چہرہ ہو دیکھنے میں مگر
جو آئنے میں تھا دل کے نہیں وہ بال گیا
چہک رہا تھا کہ شاخوں میں سرسراہٹ سے
مرے سَرُور کا یک بارگی جمال گیا
لپک تھی جس کو دکھانے کی چال کا جادو
ہرن وہ آج اُدھڑوا کے اپنی کھال گیا
کھلا حساب خسارے کا پھر نیا ماجدؔ
شمارِ کرب و الم میں اک اور سال گیا
ماجد صدیقی
جواب دیں